جو تم کو سینے میں چھپاتے نہ جاتے
بکھر جانے کا غم مناتے نہ جاتے
سنو تم کو الفت اگر تھی زرا بھی
تو دل میرے کو یوں جلاتے نہ جاتے
نہ ہوتے آ نکھ میں آنسو وقتِ رخصت
جوتم دل کے گلشن میں آتے نہ جاتے
کبھی سوز تیرا جگر نہ جلاتا
غمِ عشق سینے لگاتے نہ جاتے
خاروں سے شکائت یہ کیسی ہے تجھ کو
پھولوں سےدریچے سجاتے نہ جاتے
ہجر کے غموں سے جو بچنا تھا تجھ کو
نرر سے نظر کو ملاتے نہ جاتے
تماشہ تو اپنا بنایا ہے خود ہی
ناسورِجگر سب کو دکھاتے نہ جاتے
نگاہوں نے پُرنور ہونا ہی رضا تھا
جودن رات آنسو بہاتے نہ جاتے
شعر کہنا اتنا آساں بھی نہیں اب
رضا گیت ورنہ سناتے نہ جاتے