بکھرے پڑے ہیں ارماں میرے پر تم کو اس سے کیا لینا
میرا جو چاہے حال ہو جگر تم کو اس سے کیا لینا
تم موج دریا کی ہو خوب تم موج کرو
ڈوبیں ہم یا تیریں مگر تم کو اس سے کیا لینا
ہاتھ پکڑ کے اوروں کا تمہیں راہ دیکھانی آتی ہے
تیرا ڈھوٹڈ رہے ہیں ہم کب سے گھر تم کو اس سے کیا لینا
دو دل کو تسلی کیوں یہ سسکیاں لیتا رہتا ہے
کیسے ہوا ہے خون جگر تم کو اس سے کیا لینا
چھوڑو اب بس رہنے دو مجبوری ہے مجھے منظور
رہوں پاس یا میں دور پر تم کو اس سے کیا لینا
ہوئے ناراض یونہی قلزم باتوں باتوں میں کوئی بات نہ تھی
اب آنسو بہا کے منائیں اگر مگر تم کو اس سے کیا لینا