بکھرے ہوئے لمحوں کو سمیٹ رہا ہے کوئی
وہ دیکھو آج چپ چپ کے رو رہا ہے کوئی
وہ رکھتے تھے قدم جو پھولوں پر ہنس کر
آج قدم کانٹو ں پر رک کر چل دیا ہے کوئی
جن آنکھوں نے اوڑائیں تھی نیندیں ہماری
ان آنکھوں سے آنسوں بہا رہا ہے کوئی
روک لے قائم کو اٹھنے سے اے خدا
حال سنانے اپنا قبر پر آرہا ہے کوئی