بکھرے ہوئے لمحوں کے مقدر پہ کھڑا ہے
یہ کون مرے عکسِ تصور پہ کھڑا ہے
اِس شہر کے ہر ایک مکاں پہ ہے پڑی دھوپ
سایہ ہے کہ مدت سے مرے گھر پہ کھڑا ہے
توفیق اگر ہو تو فقط لفظ ہی دے دو
سائل تو بڑی دیر سے اِس در پہ کھڑا ہے
صدیوں کی مسافت میں زمیں ہونے لگی تنگ
کوہسار وہی اب بھی مرے سر پہ کھڑا ہے
احباب کی گنتی میں جو اِک شخص تھا پہلا
اب یہ کہ ہے فہرست میں آخر پہ کھڑا ہے
صحرا ہے عقیلؔ دھوپ کی شدت سے ہے پیاسا
بادل ہے کہ جب دیکھو سمندر پہ کھڑا ہے