بگڑے ہوئے حالات میں بے نام و نشاں ہوں
اپنے ہی مقدر کی بہاروں میں خزاں ہوں
نفرت کی نگاہوں سے مجھے تیر نہ مارو
الفت کی زمینوں پہ ابھی رقص کناں ہوں
تو وقت کی آنکھوں کا مری جان اجالا
" میں صبح کے بے فیض چراغوں کا دھواں ہوں "
چمکا ہے ہمیشہ ہی مری آنکھ کا شیشہ
میں وقت کی آنکھوں میں محبت کا نشاں ہوں
مل جائے گا اک روز ترا عشق جزیرہ
اس آس کی کشتی پہ ابھی تلک رواں ہوں
کیوں آنکھوں سے میری یہ اداسی نہیں جاتی
کیوں وقت کے دربار پہ میں نوحہ خواں ہوں
سہمے ہوئے منظر ہیں مری راہ میں وشمہ
حالات پہ شاہد میں ابھی بار گراں ہوں