اُٹھ نہیں پاتا جہاں میں بھاری لہو کیوں ہے
جو سمجھ ہی نہیں پاتا ایسی جستجو کیوں ہے
دشت ہو یا صحرا ، گلزار ہو یا ہو گلستان
بہلانے میں نہیں رنگ پھر ماہ نو کیوں ہے
دست میں رکھا دم ، پا سرِ خم کر دیا
قلب عشقِ امتحان ،عقل جامِ سبو کیوں ہے
بیان جو میرا نہیں مفہوم بھی تو تیرا نہیں
ڈستے مجھے اندھیرے پھیلایا آفتاب صبو کیوں ہے
اصلاحِ احوال نہیں رہتے جو دامان اِستاد ہو
پلک جھپکتی روشِ روشن قلب کسو کیوں ہے
زلفِ نار سے جھولتے ، مے خراب سے مستی نہیں
محبتوں کے رنگ ہیں تیرا فراق ہجو کیوں ہے
آسان نہیں سمجھنا لعاب ریشم کی دھار ِ کنار کو
قیام جہان میں تنہا ،سجدہ میں روبرو کیوں ہے