بھری دنیا میں کوئی یاور ہے نہ چارہ گر میرا
اُلجھا ہُوا نجانے کیوں ہے مجھ سے مقدر میرا
آج اُس نے بھی بُرا مان لیا ہے میری باتوں کا
جو شخص خود ہی ہے سبب ِ سوز ِ جگر میرا
ہزیمت میری دیکھ کروہ بھی پس و پیش میں ہے
وفا کی کسوٹی پہ جس نے پرکھ لیا ہے صبر میرا
شوق ِ جنوں نے مجھے اسقدر مدہوش کردیا
گھر میں بیٹھ کر کہتا ہوں کہاں ہے گھر میرا
غمِ ہجراں میں درد کا درماں کھوجنے نکلا تو
جہاں سے شروع ہوا وہیں ختم ہوا سفر میرا
شاید کبھی آئے صبا ساتھ لیے خوشبو اُس کی
اِسی اُمید پہ کُھلا رہتا ہے دریچہ و در میرا
یہ کیسا ہیجان ہے برپا تیرے جانے کے بعد رضا
اُجڑا اُجڑا سا لگتا ہے آج مجھے شھر میرا