بھلے دنوں کی بات تھی بھلی سی ایک شکل سی تھی
نہ یہ کہ حسن تمام ہو نہ دیکھنے میں عام ہو
نہ یہ کہ وہ چلے تو رہ گزر سی کہکشاں لگے
مگر کہ جب وہ ساتھ ہو بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو اس کے شب فضا کا رنگ روپ تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
نہ اتنی خوش لباسیاں کہ سادگی گلا کرے
نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے
نہ اس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اس پے کوئی زوم
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا ہے غم شکستگی
سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں وہ میری ضد سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو ایک بدتر ہوس کہے
سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل دیا
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل پڑا
اب اس کی یاد رات دن نہیں مگر کبھی کبھی
آتی ہے یار