میں جلوہ صد رنگ ہوں یا موج صبا ہوں
احساس کی چوکھٹ پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
اک جام تو پی لینے دے اے گردش دوراں
پھر تجھے بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں کیا ہوں
تم یاد کرو پہلی ملاقات کی باتیں
میں پہلی ملاقات ذرا بھول گیا ہوں
سو بار زمانے نے مجھے زہر دیا ہے
سو بار میں سچ بول کے سقراط بنا ہوں
اے دوست زمانے کی عنایات پہ مت جا
تو خاک بسر ہے تو میں زنجیر بہ پا ہوں
مانوس شب غم جو نہیں تھا مرا احساس
ہلکی سی اک آہٹ پہ بھی اب چونک پڑا ہوں
ہر اشک یہاں روکش تنویر سحر تھا
ہر زخم یہ کہتا ہے ترا “بند قبا“ ہوں
اکثر اسے پا لینے کی امید میں محسن
خود اپنے لیے راہ کی دیوار بنا ہوں