میں دفتر کو نکلی
تو کیا دیکھتی ھوں
اک بچہ
جو ھوگا بمشکل پانچ برس کا
وہ چھرہ جو معصوم روشن نگاھوں کے سنگ
چلا جا رھا تھا
بنا سوچے سمجھے
کہ اس کے قدم کس طرف اٹھ رھے ھیں
چلا جا رھا تھا
وہ ھوگا کسی ماں کا لخت جگر
یا ھوگا وہ جان پدر
مگر دربدر ٹھوکریں کھا رھا تھا
چلا جا رھا تھا
یا اپنے کسی دکھ اور درد کو گھٹا رھا تھا
یا قسمت کی کالک کو اپنے مقدر سے مٹا رھا تھا
چلا جا رھا تھا
چلا جارھا تھا بنا سوچے سمجھے