ہم نے اپنی زندگی جن میں گزاری، لوگ تھے
حوصلہ بھی تھے مگر، اوساں پہ طاری لوگ تھے
ہم چُنا کرتے تھے جن کے واسطے اُلفت گلاب
کیا دیا بدلہ، فقط آنسو۔ بھکاری لوگ تھے
آپ نے اچھا کیا جو آج اپنایا ہمیں
بیچ دینا تھا کہ سب کے سب جواری لوگ تھے
ہم کہ سادہ لوح تھے قرآن کو چوما کیے
اور قرآں بیچ کھایا ہے، وہ قاری لوگ تھے
اپنے آبا کی شجاعت کے فسانے یاد ہیں؟
جب کبھی لڑتے تو یہ سو سو پہ بھاری لوگ تھے
ان کی محنت سے ہی سرداروں کا سرداری نظام
خود رہے چھپّر میں بھوکے پیٹ، ہاری لوگ تھے
آج گاڑی ہے مگر جانا گوارا ہی نہیں
سب کے گھر جاتے تھے جب ہم بے سواری لوگ تھے
اپنے بچوں کے لیئے روزی کمانی تھی انہیں
لوگ جو کرتے تھے دن بھر جان ماری۔ لوگ تھے
ڈوب کر قاتل ندی میں دو جواں حسرتؔ مرے
مچھلیوں کے شوق میں آئے شکاری لوگ تھے