بھیڑ ہے لوگوں کی ہر سو آشنا کوئی نہیں
میں کسے آواز دوں پہچانتا کوئی نہیں
ان گنت پتے گرے پیڑوں سے اشکوں کی طرح
اب کی رت میں حادثوں کی انتہا کوئی نہیں
میرے دل میں چاند روشن میری پلکوں پر نجوم
میں زمیں پر آسماں ہوں جانتا کوئی نہیں
آپ کے نقش قدم بھی اب نہیں منزل نما
لوٹ جانے کا بھی اب تو راستہ کوئی نہیں
دشمنوں کو بھی جو درس دوستی دیتا رہے
اس ستم گر دور میں اتنا بڑا کوئی نہیں
کس قدر بیگانگی ہے شہر بے احساس میں
آدمی سے آدمی کا رابطہ کوئی نہیں
بے طلب کس کے گلے میں ڈال دوں اس ہار کو
مجھ سے میری زندگی بھی مانگتا کوئی نہیں
کیا وضاحت میں کروں کیا لوگ ہوں گے مطمئن
تجھ کو میری آنکھ سے تو دیکھتا کوئی نہیں
رات کے پچھلے پہر نصرتؔ کسے آواز دوں
سو رہا ہے شہر سارا جاگتا کوئی نہیں