بھیگے ہوئی پلکوں سے تجھے یاد کروں میں
برباد کروں خود کو یا آباد کروں میں
یہ دل کے قصے بھی عجب سے ہوتے ہیں
چپ بھی نہ رہ پاؤں نہ فریاد کروں میں
تیری زلفوں کے اسیر بن تیرے ہی رہتے ہیں
خود کو سنوار لوں یا برباد کروں میں
وہ تیرے وعدوں کا بھرم میں رکھ نیں پایا
بھولا ہی نہیں تم کو کہ یاد کروں میں
زیست تو مشکل ہے بن اسکے ثقلین
اسکی یادوں کو کیسے خود سے آزاد کروں میں