کڑی تھی دھوپ اور بے سائباں وہ کر گیا مجھ کو
بھری دنیا تھی لیکن بے جہاں وہ کر گیا مجھ کو
کہاں کے رنج دے کر نیم جاں وہ کر گیا مجھ کو
کہ خود میرے لیے ہی رائیگاں وہ کر گیا مجھ کو
ضرورت تھی جہاں سب سے زیادہ ساتھ کی اس کے
اسی اک موڑ پر خالی مکاں وہ کر گیا مجھ کو
مرے سارے یقیں جھوٹے، مرے سارے گماں دھوکہ
ہر اک جائے اماں میں بے اماں وہ کر گیا مجھ کو
کھلے ہیں پھول اس کی یاد کے ہر سمت آنگن میں
بہاروں میں ہی کیوں وقفِ خزاں وہ کر گیا مجھ کو