وہ خوشبو کا پیکر کی گفتارکیا تھی
محبت کی پھیلی یہ رفتار کیا تھی
میں کیسے اسے حالِ دل اب بتاؤں
یہ ایسی محبت کی تکرار کیا تھی
بہاروں کو فرصت نہیں ہے کہ لوٹیں
ہمیشہ سے حائل یہ دیوار کیا تھی
میں بیٹھی ہوئی جب غزل لکھ رہی ہوں
مری سوچ کی سب بہارکیا تھی
میں نغمہ ترا تو مری ہی صدا ہے
ترے ذکر سے میرے اشعار کیا تھی
میں نکلی تھی گھر سے وفاؤں کی خاطر
تری وادیوں سے گرفتار کیا تھی
وہ کیسے اٹھے پھر حقائق سے پردہ
مرے علم کی کچھ تو رفتار کیا تھی
اندھیرا یہ کیوں ہے چراغوں کے نیچے
جہاں میں مرے کو ئی غم خوار کیا تھی
یہ وشمہ ہی تیری نظر میں نہ آئی
ترے دشمنوں کی بھی غم خوار کیا تھی