بہت تھک گئی ہوں
اک انجان سفر کرتے ہوئے
جیتے جی پل پل مرتے ہوئے
خواہشیوں کو
دل ہی دل میں دفنا کر
لبوں سے ہستے ہوئے
جانتی ہوں ُاس کا آنا
شاید نا ممکن ہے
نا ممکن کو دعاؤں سے
ممکن کرتے ہوئے
ہر اک سے اپنا دکھ چھپا کر
رات بھر جاگ کر روتے ہوئے
زندگی کی تلخیوں سے ہار کر
ٹوٹے بکھریں
سپنے چنتے ہوئے
یوں تو آئے گئی خوشیاں
میری زندگی میں بھی
پر مدت ہوئی سورج کی طرح
پر شب ڈھلتے ہوئے
نا امیدی گناہ ہے
یہی سوچ کر
آزماش کہتے ہوئے
خاموشی سے
ہر دکھ سہتے ہوئے
بہت تھک گئی ہوں
اک انجان سفر کرتے ہوئے