میرے گاؤں میں سمندر نہیں ہے
کچھ قطرے پانیوں کے قید ہیں
تالاب میں
جب بھی میں وطن واپس جاتا ہوں
تو ایک شام وہاں گزار دیتا ہوں
مسجد والے تالاب کی سیڑھیوں پر
تالاب کا پانی بدلتا نہیں کبھی
پانی قید ہے وہاں
شاید اسی لیے پہچانتا ہے مجھے
جب بھی میں جاؤں وہاں تو کہتا ہے
اچھا ہوا مسعود تو آ گیا
بہت سی باتیں بتانی ہے تجھے
اور پھر شروع ہو جاتا ہے
وہ فلاں کی دادی فوت ہو گی
فلاں کے گھر بیٹا ہوا ہے
فلاں بابو کی نوکری چھوٹ گئی
مغرب کی طرف کا پیپل کا درخت کاٹ دیا
سڑک بنانے والوں نے
وغیرہ وغیرہ
پھر مجھ سے مخاطب ہو کر
پوچھتا ہے مسعود
اچھا یہ تو بتا شہر کے مزاج کیسے ہیں
کون بتاتا ہے تجھے خبریں شہر کی
میں جواب دیتا ہو
سمندر ہے نا ڈھیر سارا پانی
اور اتنا کہتے ہی
ایک بگولا پانی کا
گلے میں اٹک جاتا ہے
خُدا حفظ کہہ کہ چلا آتا ہوں
واپس شہر میں
جہاں ایک بڑا سا سمندر ہے
روز سمندر کے کنارے بیٹھا
دیکھتا ہوں
کیسے سینکڑوں گیلن پانی
بدل جاتے ہیں گزر جاتے ہیں
ایک آدھ قطرہ پانی کا
میری طرف بھی اچھال دیتا ہے سمندر
بس یوں ہی بغیر کسی جان پہچان کے
اب روز بدلتے پانيوں والا سمندر
کیسے شناخت کر پائے گا مجھے
کیسے امید کروں اس سے
کہ وہ کہے گا مسعود
اچھا ہوا تو آ گیا
بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے