جانے انجانے میں سہی مگر
بہت طویل انتظار دے رہے ہو
جام کو رکھ کے سامنے
پیاسے کو اور پیاس دے رہے ہو
میرے سامنے منزل ہیں اور تم
راہوں میں اک نیا دریا دے رہے ہو
کیا رکھا ہیں خوابوں میں جو
بار بار مجھے سونے کا پیغام دے رہے ہو
اتنا صبر نہیں مجھ میں جاناں
جو آخری نیزے پے پہلا دیدار دے رہے ہو
میں کہتی نہیں کچھ پر حقیقت ہے
تم تحفے میں مجھے آزماشیوں کی دکان دے رہے ہو
یہ کیسی ہیں بے قراری دل میں
جو دعا کے ساتھ ساتھ اک سزا دے رہے ہو
کیوں نہ جلے رات بھر چاندی
چاند کو سامنے لا کر بادلوں کی آڑ دے رہے ہو