بہت گُمان تھا، موسم شناس ہونے کا
وہی بہانہ بنا ہے، اُداس ہونے کا
بدن کو کاڑھ لیا، زخم کے گُلابوں سے
تو شوق پورا کیا، خوش لباس ہونے کا
فضا مہکنے لگے، روشنی جھلکنے لگے
تو یہ نشاں ہے، تِرے آس پاس ہونے کا
گُلوں کے بیچ، وہ چہرہ کِھلا، تو ہر تِتلی
تماشا کرنے لگی، بدحواس ہونے کا
اُسے بھی شوق تھا، بے وجہ دل دُکھانے کا
سو ہم نے کھیل رچایا، اُداس ہونے کا
نئے سفر، پہ روانہ تو ہم بھی ہو جاتے
بس انتظار تھا موسم کے راس ہونے کا
نظر میں خاک ہوئے، گُلرُخاں بھی جب سے ہمیں
شرف ملا ہے، تِرے روشناس ہونے کا