مری ہر سوچ کا ذرّہ ہے بکھرنے والا
آج سانسوں سے دھواں سا ہے نکلنے والا
لاکھ رہتا ہے مرے ساتھ مقدّر بن کر
چاند ہوتا نہیں ہر تارا چمکنے والا
رسمِ دنیا ہے یہ آداب! تو کہنا ہو گا
کتنا مشکل ہے کہ سمجھے نہ سمجھنے والا
رات تو کٹ گئی غم یار مناتے اپنی
آؤ اب گھر چلیں سورج ہے نکلنے والا
گر یہ ممکن ہے تو اک بار ذرا دیکھ تو لو
مثلِ بسمل ہے وہ پھر آج تڑپنے والا
بہہ نہ جائیں تری یادوں کے گھروندے وشمہؔ
مری آنکھوں سے سمندر ہے اترنے والا