بیتی گھڑیاں یا د کروں میں جب بھی بیٹھ اکیلی
میرے من کے اندر جیسے کھلنے لگے چمبیلی
کِس نے تجھ کو سمجھا ،کِس نے تیرے دُکھ کو جانا ؟
جو بھی بولا بس یہ بولا عورت ایک پہیلی
تنہایٔ کا درد جہاں میں تنہا سہتے سہتے
دِل اِنسان کا بن جاتا ہے اِک ویران حویلی
خود ہی اپنا درد بٹاؤں خود کو ہی سمجھاؤں
نہ کویٔ ہمدرد ہے میرا نہ ہی سجن بیلی
کِس نے لوٹا چین تمہارا کِس نے نیند اُڑایٔ ؟
کِس نے تجھ کو درد دیا ہے کچھ تو بول سہیلی
دھیرے دھیرے چھپتا جاۓ چاند گھنے بادل میں
ایسے وہ شرماۓ جیسے دُلہن نییٔ نو یلی
اپنے رب سے مانگا میں نے جب جب بھی کچھ مانگا
اور کِسی کے آگے تو نہ پھیلی کبھی ہتھیلی