بیتے ہوئے زمانے کے تعاقب میں
زندگی کٹتی ہے واپسی کے سفر میں
ہجر و فراق کی رہگزر پر چلتے چلتے
کب لوٹتا ہے کوئی اپنے گھر میں
پریشاں ہو کہ خدا یاد کرتا ہے
رنج کا مداوا ہے اسکے ذکر میں
وبال جاں ہے زندگی تو ایسے بھی
گزرتی ہے کیوں پھر موت کے ڈر میں
جانے کون چرا لیتا ہے نیند
خواب تیرتے ہیں رات بھر چشم تر میں
جلایا ہے جس نے جسم روح نہ جلا سکی
کوئی چنگاری سی ہے میرے خاکستر میں