ایک بیجا ضد نے اُس کی کر دیا ویراں مجھے
اب بھلا کیا رہ گیا ہے کہنا یہ جا کر اُسے
چھوڑ کر مجھ کو اکیلا یوں سرابوں کے لیئے
خود بھی تنہا ہو گیا کیا ملا کہنا اُسے
مجھ کو فقط تیرا مگر تھا تجھ کو اوروں کا خیال
جِن کی خاطر ہم برے تھے اب کہاں کہنا اُسے
زخمِ دل گر بھر بھی دے گا وقت کا مرہم کبھی
مٹ سکیں گے داغ دل کے داغِ دل کہنا اُسے
احمر ساتھ بھی چھوڑا تو کب جب فاصلہ دو گام تھا
ہو چلا ہے رائیگاں عمرِ سفر کہنا اُسے