گلاب چہرہ بہاروں میں آ کے بیٹھ گئے
عدو کے حربے سہاروں میں آ کے بیٹھ گئے
لکھے ہوئے ہیں جو ارمان پڑھ تو سکتے ہو
کہ سب یہ نان کے پاروں میں آ کے بیٹھ گئے
یہ ماہ و مہر بھی، یہ کہکشاں بھی دھوکہ ہے
کہ جگنو آنکھ کناروں میں آ کے بیٹھ گئے
امیرِ شہر نے فیضان کا کِیا اعلاں
غنی بھی عرض گزاروں میں آ کے بیٹھ گئے
کوئی تو دستِ صبا پر پیامِ دل ہی کھلے
پرندِ عشق قطاروں میں آ کے بیٹھ گئے
بسے ہیں آنکھ کے حلقے میں جگنووں کے جھنڈ
کہ شاہ زادے حصاروں میں آ کے بیٹھ کئے
ترنگ بوندوں میں کیسی؟ فضا میں نقش و نگار
سُرور ٹھنڈی پھواروں میں آ کے بیٹھ گئے
نگر میں جب سے ہؤا راج سرد مہری کا
وفا شعار یہ غاروں میں آ کے بیٹھ گئے
رشیدؔ دھونی بنانے لگی ہے مرغولے
مجاور آج مزاروں میں آ کے بیٹھ گئے