بیٹھے ہیں انتظار میں ہم تیرے در کے پاس
اک درد کا ہے دور میرے ٹوٹے جگر کے پاس
ہم کب سے ڈھونڈتے ہیں کوئی سائیہ دیوار
لیکن پناہ ملی ہے ہمیں سوکھے شجر کے پاس
کھانے کو غم ہے آپ کا پینے کو جگر کا خون
پانی کی بُوند مانگنے ہم چلے ہیں خضر کے پاس
ُٹھکرا دیں ہم بہشت کی رعنائیا ں سب ہی
رہنے کو جھونپڑا جو ملے تیرے در کے پاس
انتہائے عشق کی عقیدت تو د یکھئے
سجدہ کیا ہے ہم نے تیری رہگزر کے پاس
ملتا کہیں قرار نہیں خلق خدا کو یہاں
بیٹھے کوئی مسجد میں چاہے گرجا گھر کے پاس
بے تا بیوں میں بھٹکے ہے ہر شخص یہاں پر
بیٹھا ہے چیتھڑوں میں کوئی چاہے زر کے پاس
تنہائی مقدر اب اور دل کی جگہ درد
کیا ڈھونڈنے آتے ہو تم اب قیصر کے پاس