اپنے آبأ کا گھر بیچنا ہے
ہم کو پیارا ہے، مگر بیچنا ہے
بھوک بچوں کی ہمیں توڑ گئی
شعر کہنے کا ہنر بیچنا ہے
دل تو پہلو میں کبھی تھا ہی نہیں
تم خریدو گے تو سر بیچنا ہے
وہ گرانی ہے کہ اب اپنا وقار
لے کے آنا ہے، ادھر بیچنا ہے
بک گئے چاند ستارے کب کے
اب جو باقی ہے اثر بیچنا ہے
اپنے بیٹے کی کتابیں بھی مجھے
کیا کروں دیدۂِ تر۔ بیچنا ہے
جو مقفّل ہی ملا جب بھی گئے
ایسے مے خانے کا در بیچنا ہے
کچھ نہیں اپنی تمنّا کا لہو
رات اُترے کہ سحر، بیچنا ہے
خوف ایسا ہے مسلط حسرت
دھونس کے مارے یہ ڈر بیچنا ہے