جلتے بجھتے خواب ہیں اور بے سکونی کی ہوا
راستوں کی خاک میں ہے زندگی اب اک سزا
قافلے جب لٹ گئے تو کیسی پھر مجبوریاں
بے کسی کا ہے سفر اور آندھیوں میں کربلا
تھیں مسلسل کاوشیں خود کو زخم پہنچانے کی
بگڑے ہوئے حالات میں تھا جینے کا اپنا مزا
تلملاتی سوچوں میں ہیں خوف کی وہ بستیاں
ہر شخص ہے بے آسراء اور درد میں ڈوبا ہوا
ایک جانب ہم کھڑے ہیں اور دوسرے کنارے پے وہ
انتظار کی لذتوں میں ہے بے اعتباری کی فضا