بے بسی کی ایک نظم
کیا اُس پہ میرا بس ہے
وہ پیڑ گھنا
لیکن کسی اور کے آنگن کا
کیا پُھول میرے
کیا پھل میرے
سایہ تک چُھونے سے پہلے
دنیا کی ہر اُنگلی مجھ پر اُٹھ جائے گی
وہ چھت کسی اور کے گھر کی
بارش ہو کہ دُھوپ کا موسم
میرے اِک اِک دن کے دوپٹے
آنسو میں رنگے
آہوں میں سُکھائے جائیں گے
تہہ خانۂ غم کے اندر
سب جانتی ہوں
لیکن پھر بھی
وہ ہاتھ کسی کے ہاتھ میں جب بھی دیکھتی ہوں
اِک پیڑ کی شاخوں پر
بجلی سی لپکتی ہے
اِک چھوٹے سے گھر کی
چھت بیٹھنے لگتی ہے