بے سبب روٹھ کر ہم سے او ! جانے والے۔
اپنی الفت کا تماشہ بناتے ہیں بنانے والے۔
کیا برا تھا کہ تم پھر سے لوٹ آ تے؟
ہم سے بچھڑ کر دور کہیں جانے والے۔
اک تیرا سہارہ تھا بس اپنے جینے کی امید۔
کہاں گم ہوگئے امید کے بر لانے والے؟
زندگی آ خر سفر کو ھے رخصت ہو نے والی۔
بس تیرا انتظار ھے فقط ادھر کو آنے والے
یاد میں تیری اشک بار ہیں اپنی آ نکھیں۔
او ! دل کو خوں اندیشہ اپنے رلانے والے۔
ہجر کا عالم ھے اور ادھر ہیں ہم تنہا۔
ہیں اکیلے تجھ بن جلد آ آجانے والے۔
وقت رخصت کا اسد آ خری سلام لے لے۔
پھر نہ لوٹیں گے شب ہجر کے جانے والے۔