بے وجہ سا یہ درد اب ٹھرتا کیوں نہیں ھے
جو بیت گیا ھے کل وہ اب گزرتا کیوں نہیں ھے
کیا ڈھونڈتی ھیں آنکھیں سب کچھ تو ھے پاس
مدت ھو گئی ھے پھر بھی وقت کٹتا کیوں نہیں ھے
ایک وہ چہرہ ھی تو نہیں ہے اس سارے جہاں میں
دور ہو کے بھی وہ میرے دل سے اترتا کیوں نہیں ھے
میں اپنی ھی الجھی ہوئی راہوں کا مسافر ہوں
میری منزل کی طرف رستہ پھر مڑتا کیوں نہیں ھے
اک شخص جو برسوں سے نقش ھے تیرے ذہن میں تنویر
خواب ھے اگر وہ تو پھر بکھرتا کیوں نہیں ھے