غم ہے مجھے جس کی بے وفائی کا
اسے احساس کہاں میری جدائی کا
چھوڑ چلا مجھے دیکر سوغات غم
جواب نہیں اُس کی اِس عطائی کا
اب دل لگتا نہیں محفلوں میں میرا
ہوا مہمان میں جب سے تنہائی کا
میں نالے دیتا رہابے بسی میں اوروہ
اسیر ہوتا گیا میری خوشنوائی کا
مستقل گھر کر لیا تھا میری روح میں
کیا غضب اثر تھا اس کی گیرائی کا
بسنا سکا کوئی بھی اک دید کے بعد
معاملہ دل کا تھا خطا کیا بینائی کا
شوق دیدار میں سوتے نہیں تھے ہم
ہاں چاندنی گہنا تھا اس ہرجائی کا
لکھتا بہت میں اس حسیں پر فراز
پھر ڈر ستاتا ہے اس کی رسوائی کا