بے کار ہی سہی مگر کچھ تو ہنر رہا
لوگوں کے درمیان تھا محوِ سفر رہا
اِک پل میں جیسے عمر کی صدیاں سمٹ گئیں
جتنا طویل فاصلہ تھا مختصر رہا
میرا خلوص ہی مری قیمت تھی شہر میں
سب مفلسوں کے درمیاں میں معتبر رہا
بنجر زمین کیا ہوئی بارش سے پوچھیے
جو پیڑ بھی ہوا یہاں وہ بے ثمر رہا
شب کے سکوت میں رہیں ڈوبی حویلیاں
یہ کون اس گلی میں تھا جو دربدر رہا
یوں ہم رکاب تھا کہ سرِ کارواں عقیلؔ
کچھ فاصلے سے تھا مگر وہ ہمسفر رہا