بے کلی، بے خودی کچھ آج نہیں ایک مدت سے وہ مزاج نہیں درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے اب دوا کی کچھ احتیاج نہیں ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن مرضِ عشق کا علاج نہیں شہرِ خوبی کو خوب دیکھا میر جنسِ دل کا کہیں رواج نہیں