سونپ کر اپنی سوچ مجھے یوں چھوڑ جائے گا
غیر تو غیر ہے آخر دل توڑ جائے گا
یہاں تو اپنے ہی رہتے ہیں پیاسے خون کے
غیر تو غیر ہے روح کی آس تک مٹائے گا
اک اک کر کے کٹ گئے اگر سب شجر زمین پہ تو
بے گھر پرندہ گھونسلہ آخر کہاں جا کر بنائے گا
ہے عاجزانہ گزارش ان بے موسمی ہواؤں سے
رُک جاؤں کہ گرتے پتے شمار کرنے نہ کوئی آئیگا
اے موجِ دریا بہا لے چل سنگ اپنے مجھ کو بھی
چلوں گی ساتھ ساتھ میں کنارہ کہیں تو آئے گا