اب میرے شانے سے لگ کر کس لئے روتی ہو تم
یاد ہے تم نے کہا تھا
جب نگاہوں میں چمکتے ہو
لفظ جذبوں کے اثرسے کانپتے اور تنفس
اس طرح الجھیں کہ جسموں کی تھکن خوشبو بنے
تو وہ گھڑی عہد وفا کی ساعت نایاب
وہ چپکے سے بچھڑ جاتے ہیں لمحے ہیں مسافت
جن کی خاطر پاؤں پر پہرے بٹھاتی ہے
نگاہیں دُھندکے پردوں میں اُن کو ڈھونڈتی ہیں
اور سماعت ان کی میٹھی نرم آہٹ کیلئے
دامن بچھاتی ہے
اور وہ لمحہ بھی تم کو یاد ہو گا
جب ہوائیں سرد تھیں اور شام کے میلے کفن پر
ہاتھ رکھ کر
تم نے لفظوں اور تعلق کے نئے معنی بتائے تھے کہاں تھا
ہر گھڑی اپنی جگہ پر ساعت نایاب ہے
حاصل عمر گریزاں ایک بھی لمحہ نہیں
لفظ دھوکہ ہیں کہ ان کا کام ابلاغ معانی کے علاوہ کچھ نہیں
وقت معنی ہے جو ہر لحظ نئے چہرے بدلتا ہے
جانے والا وقت سایہ ہے
کہ جب تک جسم ہے یہ آدمی کے ساتھ چلتا ہے
یاد مثل نطق پاگل ہے کہ اس کے لفظ معنی سے تہی ہیں
یہ جسے تم غم اذیت درد آنسو
دُکھ وغیرہ کہہ رہے ہو
ایک لمحاتی تاثر ہے تمہارا وہم ہے
تم کو میرا مشورہ ہے بھول جاؤ تم سے اب تک
جو بھی کچھ میں نے کہا ہے
اب میرے شانے سے لگ کر کس لئے روتی ہو تم