تجسس کو اگر پیکر میں لے آؤں تو پھر کیا ہو
نہیں ہے جو اگر اس میں سما جاؤں تو پھر کیا ہو
ابھی مجھ کو خیال آیا ہے اس دنیا میں آنے کا
خیال آنے کا یہ عالم ہے خود آؤں تو پھر کیا ہو
ضرورت ہو تو مجھ کو ڈھونڈ لیتا ہے کتابوں میں
اگر میں لفظ و معنی سے نکل جاؤں تو پھر کیا ہو
اساس کن کا باطن ہوں لباس کن کا ظاہر ہوں
میں آواز مجسّم ہوں جو تھم جاؤں تو پھر کیا ہو
ضروری ہے کہ شاہی قرب ہی جھیلوں میں برسوں کا
یہ اپنی زیست لمحوں میں بتا جاؤں تو پھر کیا ہو