تجھ کو دیکھے اک زمانہ ہو گیا
زہر اب تو آب و دانہ ہو گیا
عشق جینے کا بہانہ ہو گیا
دام تھا قسمت سے دانہ ہو گیا
مسکرا کر تو روانہ ہو گیا
میری وحشت کا بہانہ ہو گیا
سیر کرکے تو چمن سے کیا چلا
دل بھی پہلو سے روانہ ہو گیا
ایک دن روئے تھے تیری یاد میں
تھا یہ قصہ جو فسانہ ہو گیا
دی جلا ایسی تصور نے ترے
دل مرا آئینہ خانہ ہو گیا
پوچھتے ہو حال کیا عالیؔ کا اب
مر گیا وہ تو زمانہ ہو گیا