پی کر خون کے آ نسو میں نے
دکھوں کے ساتھ نباہ کیا
تجھے تو ظلمتِ مجہول نے تباہ کیا
ساتا روہن جو تیرے گرد منڈلاتے رہتے تھے
انھی کی ریشہ دوانیوں نے تجھے
ہر لمحہ گمراہ کیا
کسی کے ساتھ تو نے کب نباہ کیا
جو زخم دل پر لگے سہہ لیے پر آہ نہ کی
تیرا ضمیر تو مردہ تھا اے ابنِ شقی
تمھاری خست و وحشت کو دیکھ کر میں نے
سمجھ لیا تھا کہ متفنی ہے تیری فطرت بھی
تیری جہالت مآبی کے تذکرے ہوں گے
تاریخ لکھے گی حرف سیاہ میں سب کچھ
تمھارے سبز قدم نے چمن کو لوٹ لیا
تجھے یہ زعم کہ طاقت ہے تیری لامحدود
فرعون اور نمرود کے انجام کو بھلا ڈالا
میں لوٹ آیا ہوں پھر اپنے کنجِ عزلت میں
تمھارے انتقام کے باعث جو مل گئی اسی نکبت میں
تمھارے پیچھے زمانے کی ہاہا کار ہوگی
جو قبر میں بھی وبال ہوگی تیرے لیے
تمھارے درپئے مظلوم کی پکار ہوگی
تیرا وجود ہی دنیا میں ننگ ہوجائے
تجھ پہ زیست کا عرصہ ہی تنگ ہو جائے