درد کی آگ بُجھا دو کہ ابھی وقت نہیں
زخمِ دِل جاگ سکے، نشترِ غم رقص کرے
جو بھی سانسوں میں گُھلا ہے اسےعُریاں نہ کرو
چُپ بھی شعلہ ہے، مگر کوئی نہ اِلزام دھرے
ایسے اِلزام کہ خود اپنے تراشے ہوئے بُت
جذبہِ کاوشِ خالق کو نگوں سار کریں
مُوقلم حلقہِ ابرُو کو بنا دے خنجر
لفظ نوحوں میں رقم مدحِ رخِ یار کریں
رقصِ مینا سے اُٹھے نغمہِ رقصِ بسمل
ساز خود اپنے مغنّی کو گنہگار کریں
مرہمِ اشک نہیں زخمِ طلب کا چارہ
خون بھی روئے گے تو کس خاک کی سج دھج ہو گی
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر
جو بھی دیوار اُٹھاؤ گے وہی کج ہو گی
کوئی پتھر ہو کہ نغمہ کوئی پیکر ہو کہ رنگ
جو بھی تصویر بناؤ گے اپاہج ہو گی