ترا غیر پر جب کرم دیکھتے ہیں
تو اپنے مقدر کو ہم دیکھتے ہیں
نہیں خوف کچھ بھی انہیں گمراہی کا
جو تیرا ہی نقشِ قدم دیکھتے ہیں
ملا ہی نہیں ایک پل بھی جو ہم سے
اسے ہر گھڑی دم بدم دیکھتے ہیں
دعا ہے کہ دشمن بھی وہ غم نہ دیکھیں
جو تیری جدائی میں ہم دیکھتے ہیں
عجب حال اپنا ہے چاہت میں تیری
خوشی اور غم کو بہم دیکھتے ہیں
قیامت گزرتی ہے دل پر ہمارے
جو تیری کبھی چشمِ نم دیکھتے ہیں
پری چہرہ لوگوں کی صورت میں یاسؔر
تجھی کو خدا کی قسم دیکھتے ہیں