آنکھوں میں اشکوں کی صداقت ہے میرے
بھلے ہی ترکِ الفت کا کہ آئے ہیں تجھے
تجھ سے جدائی کا اندیشہ بھی رہا ہے مجھے
اور نہیں تو بیاض میں پا لوں گا تجھے
درشتی سے بات کا شعار بھی ہے مجھے
بھلے ہی کہ دو روش بدل گئے ہیں تیرے
زخم و مرہم بھول جاتے ہیں مجھے
دمِ تحریر رکھتے ہیں جب بھی ہم تجھے
کسک دل میں باقی رہے گی ہاں میرے
دے دیں گے دارو دیوان بھی ہم تجھے
پاس رکھے جو, تیری خوشبو سے لگاؤ ہو گیا تھا مجھے
وہ گلاب وہ کیسر بھی دے دیں گے ہم تجھے
رمَق باقی ہے, اک آسرا تنہائی کا ہے مجھے
گرامی نامہ جلد ہی مل جائے گا تجھے