ترکِ وفا تم کیوں کرتے ہو؟ اتنی کیا بیزاری ہے
ہم نے کوئی شکایت کی ہے ؟ بے شک جان ہماری ہے
تم نے خود کو بانٹ دیا ہے کیسے اتنے خانوں میں
سچوں سے بھی دعا سلام ہے ، جھوٹوں سے بھی یاری ہے
کیسا ہجر قیامت کا ہے لہو میں شعلے ناچتے ہیں
آنکھیں بند نہیں ہو پاتیں ، نیند حواس پہ طاری ہے
تم حاصل کرلی ہو گی شاید اپنی منزلِ شوق
ہم تو سرابوں کے راہی ہیں اپنا سفر تو جاری ہے
پتھر دل بے حس لوگوں کو یہ نکتہ کیسے سمجھائیں
عشق میں کیا بے انت نشہ ہے یہ کیسی سرشاری ہے
تم نے کب دیکھی ہے تنہائی اور سناٹے کی آ گ
ان شعلوں میں اس دوزخ میں ہم نے عمر گذاری ہے