ترے پند و نصیحت محتسب ! وہ کیا سمجھتے ہیں
قیامت کو جو ان کا وعدہ ء فردا سمجھتے ہیں
نہیں ہے احتیاج لب کشائی روبرو ان کے
کہ اہل دل، زبان دیدہ ء بینا سمجھتے ہیں
جو گل کے آئنے میں دیکھ سکتے ہیں رخ گلشن
وہ اربان نظر، قطرے کو بھی دریا سمجھتے ہیں
کوئی درپردہ کس سے چل رہا ہے کون سی چالیں
سمجھ ہر چند ناقص ہے، مگر اتنا سمجھتے ہیں
نہ پوچھو کچھ کہ کیا کچھ دے دیا ہے دینے والے نے
بڑا ہو لاکھ کوئی ، ہم کسی کو کیا سمجھتے ہیں
بہ ظاہر خوش تھے جو کل تک ہماری گل فشانی پر
وہ اپنے بھی ہمیں اب راہ کا کانٹا سمجھتے ہیں
ترے دھوکے میں آنے کے نہیں ہم اے نفاق آرا
ترے برتاؤ کو ہم خوب اے دنیا ! سمجھتے ہیں
نظر ان کی نہیں اٹھتی سر محفل مری جانب
کہ وہ میرے لب خاموش کا منشا سمجھتے ہیں
جو نکلیں جستجو کا شوق لے کر راہ جاناں میں
وہ ہر منزل کو اپنے پاؤں کا چھالا سمجھتے ہیں
قیامت سر پہ جو ٹوٹے ، مصیبت دل پہ جو آئے
حقیقت میں اسے ہم مرضی ء مولٰی سمجھتے ہیں
لگا دی تہمت بادہ کشی ان پر بھی واعظ نے
نصیر ! انکی نظر کو جو مئے ومینا سمجھتے ہیں