تعبیر ہو جس کی اچھی سی، کوئی ایسا خواب نہیں دیکھا
کوئی ٹہنی سبز نہیں پائی، کوئی شوخ گلاب نہیں دیکھا
ایسا ہے کہ تنہا پھرنے کا کچھ اتنا زیادہ شوق نہیں
ترے بعد سو ان آنکھوں نے کبھی جشنِ ماہتاب نہیں دیکھا
ہم ہجرزدہ سودائی تھے جلتے رہے اپنے شعلوں میں
اچھا ہے تُو محفوظ رہا، تُو نے یہ عذاب نہیں دیکھا
بس اتنا ہوا، ہم تشنہ دہن لوٹ آئے بھرے دریاؤں سے
کوئی اور فریب نہیں کھایا، کوئی اور سراب نہیں دیکھا
کسی شاخِ امید کی بانہوں نے گجرے نہیں پہنے اب کے برس
یہ موسم یوں ہی بیت گیا، کلیوں پہ شباب نہیں دیکھا