تقاضہ اور تھا دل کا مگر یاں ہے یہ تنہائی
تری محفل میں آئے ہم ، ملی ہم کو ہے رسوائی
نہیں تھا میری قسمت میں کسی کا ہم قدم رہنا
مری چاہت کے گلشن میں چلی ہے کیسی پروائی
گلہ کس سے کریں اے دل وفا کس سے نبھائیں ہم
مری دنیا کے لوگوں نے جفا کی طوق پہنائی
سنائی دے رہی ہیں پربتوں سے غم کی آوازیں
ترنم سے جو گائیں اب کہاں جھرنوں کی شنوائی
نظر آتا ہے ہر سو نور برفیلے پہاڑوں پر
یہ قدرت کی نشانی ہے ، خدا سے ہے شناسائی
نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصّہ کہانی ہے
تمھاری یاد میں اب نیند بھی مجھ کو نہیں آئی
بہاریں یوں ہی مہکاتی رہیں اس کو سدا وشمہ
مگر افسوس گلشن میں نہیں میری پزیرائی