تلاش اُس کی ہے مجھے جس کو کبھی دیکھا بھی نہیں
خیال اُس کا ہے دل میں جسے کبھی سوچا بھی نہیں
میں اپنے خُدا سے اپنے لیے التجا کرتا بھی تو کیا کرتا
مجھے طلب بھی اُس کی ہے جس کو کبھی مانگا بھی نہیں
سُکوتِ دل میں میرے لیے اب یہ احساسِ زندگی بھی کیا ہے
قریب پاتا ہوں میں اُس کو جسے کبھی چاہا بھی نہیں
حساب مُجھ سے اب وہ کس کے لہُو کا مانگتے ہیں
وہ خُون ہے میرے ہاتھوں پہ جو کبھی بہا بھی نہیں
علاج اب مُجھ سے بھی ممکن نہیں ہے محبت کا مسعود
وہ زخم ہے میرے سینے پہ جو کبھی سہا بھی نہیں