کبھی صبح کبھی شام میں تلاش کرتا ہے
وہ مجھے گردشِ ایّام میں تلاش کرتا ہے
بچھڑ کے مجھ سے نہ بُھلا سکا ہے مجھ کو
وہ اب بھی مجھے اپنے نام میں تلاش کرتا ہے
ہر ایک سے پوچھتا ہے میرے نام کے معنی
نہ جانے کیا وہ میرے نام میں تلاش کرتا ہے
اِتنی تنقید تو کوئی غیر بھی نہیں کرتا
جتنے وہ نقص میرے کام میں تلاش کرتا ہے