تلخ ایام میں تھوڑا سا جو مسکراتے ہیں
تمہارے ساتھ میں خود کو ہم جینا سکھاتے ہیں
بڑے طریقے ہیں ان کو آزمانے کے
بڑے سلیقے سے ہمیں وہ آزماتے ہیں
قرطاس ء دل پہ لکھتے ہیں بڑے شوق سے
بڑے ذوق سے پرزے پھر ہواؤں میں اڑاتے ہیں
وہ جو ہیں بکھرے سے روٹھے اور اجڑے سے
گزر کر جاں سے اپنا پاس ء وفا نبھاتے ہیں
کئ طوفان رکھتے ہیں ہم خاموشی میں اپنی
کئ ساگر چپکے سے آنکھوں میں چھپاتے ہیں
تمہیں معلوم ہی کیا ہیں حالات اداس لوگوں کے
آؤ آج تمہیں ہم سب کچھ بتاتے ہیں
آنکھیں بے خواب رہتی ہیں لفظ بے آواز رہتے ہیں
دل حساس ہو جائیں تو خود کو خود ستاتے ہیں
بہت ہی خوبصورت ہے عنبر جزبہ محبت کا
نجانے لوگ کیوں خود کو نفرت میں جلاتے ہیں