تلخ تر پھر داستاں ہوتی گئی
ہر حقیقت جب عیاں ہوتی گئی
زندگی جب بیکراں ہوتی گئی
پھر محبت ناگہاں ہوتی گئی
راز دل کا جب بیاں ہوتا گیا
بے رخی درمیاں ہوتی گئی
دولت احساس جب بڑھنے لگی
آدمیت پھر جواں ہوتی گئی
ہر زمانے میں وفا کی داستاں
یوں ہی بے نشاں ہوتی گئی
بد نصیبی سے طلب کے باغ میں
ہر بہار اپنی خزاں ہوتی گئی
ہر جتن تسکین کا بے کار تھا
کاوش دل رائگاں ہوتی گئی
ہر زمانے میں سکون و درد کا
یہ غزل ہی ترجماں ہوتی گئی
یوں بسر کی رات تیرے ہجر میں
سانس بھی آہ و فغاں ہوتی گئی
حادثوں سے اس طرح دل بجھ گیا
آرزو رومی دھوں ہوتی گئی