تلخ یادیں
Poet: Shabbir Rana By: Dr.Ghulam Shabbir Rana, Jhang City(Punjab--Pakistan)ایامِ گزشتہ کی کتاب کے ورق
جب بھی کھولتا ہوں
تم سے منسوب اے آنسو
جان لیوا صدمے ہیں
خونچکاں فسانے ہیں
بے رحم زمانے ہیں
کررہا ہوں اب نفرین
تیرے جبر پر پہیم
ان گنت بہانے ہیں
تم تو آسو کوفی نکلے
گھر سے بلا کر کیا فریب
مشکوک نسب کے وحشی تم کو
ایسا ہی دیتا تھا زیب
اجلاف تمھارے آبا تھے
اور تمھارے وہ ننھیال
شاہی محلے کی زینت تھے
سب سب کے تو تھے ارزال
سائیں سائیں کرتے جنگل میں
جنگل کا قانون تھا نافذ
چام کے دام چلا کر تم نے
مظلوموں کو کیا نڈھال
سفہا کے بل بوتے پر تم نے
مجبوروں کو گھیرا تھا
مجبوروں پر کوہ ستم توڑے تو نے
تیرے عقوبت خانے میں اے وحشی
میرا جوگی والا پھیرا تھا
تیری شقاوت آمیز ناانصافیاں
اور بے رحمانہ مشقِ ستم
مجھے منہدم کر گئی
ان مسموم حالات میں میری بچی
عدم کی وادیوں میں سفر کر گئی
اب بے چراغ آنگن میں
اپنی حسرتوں کے مدفن پر
پوچھتا ہوں میں تم سے
اے راسپوٹین قماش کے وحشی کہاں ہو تم؟
اے راجہ اندر بولو جہاں ہو تم
وہ پریوں کا اکھاڑہ کہاں گیا؟
سب ٹٹو، ٹیرے کدھر گئے
تیرا سب راتب بھاڑا بکھر گیا
رواقیت کے داعی اے خبطی مجنون
تو کہ فرعون بن گیا تھا وہاں
بیگار کیمپ بنا ڈالا تو نے گلشن کو
فطرت کی تعزیروں کو تو بھول گیا
تیرے جور و ستم کی کوئی حد ہی نہ تھی
شعلوں سے بھر ڈالا تو نے
مجبوروں کے آنگن کو
شباہت شمر کے سب افسانے
کتنے تھے مرغوب تجھے
پری چہرہ جتنے بھی تھے
رہے سب کے سب محبوب تجھے
تو سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا تھا
دوشیزاؤں سے ہاتھ ملا کر
خوب ہنہناتا تھا
سب خواب تمھارے بکھر گئے
تمہیں نکالا گیا کمیں گاہ سے ایسے
دودھ سے جیسے مکھی نکالی جاتی ہے
خس و خاشاک سے گلشن پاک ہوا
مظلوموں کے چہرے پھر سے نکھر گئے
فطرت کی تعزیریں تجھ پر نافذ ہیں
تو عبرت کی ایک مثال بنے گا ضرور
خدا کی لاٹھی تیرے سر پر برسے گی
وہ دن دور نہیں ہے جب
کوے اور گدھ تجھ کو نوچیں گے
تیری لاش
گورو کفن کو ترسے گی
سیلِ زماں کا ایک تھپیڑا آئے گا
تیرانام ونشاں نہ کوئی پائے گا
تجھ پر لعنت دنیا بھر کی برسے گی
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں







